نئی دہلی،28اکتوبر(آئی این ایس انڈیا/ایس او نیوز) کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے ہفتہ کو پارٹی ہیڈکوارٹر میں ریٹائرڈ آرمی اہلکاروں سے ملاقات کی۔اس ملاقات میں رافیل سودے سے لے کر ون رینک ون پنشن (اوآراوپی)سمیت کئی معاملات پر بات چیت ہوئی۔فوجیوں کے ساتھ ملاقات میں رافیل سودے میں خرابی اور اوآراوپی میں فوجیوں کے ساتھ دھوکے کی بات اٹھائی گئی۔راہل گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی رافیل کے لئے حکمت عملی بدل دی۔اس کے علاوہ فوجیوں کے لئے ون رینک ون پینشن لاگو نہیں کیا۔
کانگریس صدر نے کہا کہ رافیل کے ایک ہوائی جہاز کے لئے 1600کروڑ روپے دیے گئے، جو کہ بدعنوانی کی بہت بڑی مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے فوجیوں سے وعدہ کیا لیکن اسے مکمل نہیں کر سکی،اگر ہماری حکومت بنی تو فوجیوں کے لئے پنشن اسکیم لاگو کیا جائے گا۔کانگریس صدر نے اوآراوپی کاموازنہ رافیل سودے سے کرتے ہوئے کہا کہ حکومت امبانی کو 30ہزار کروڑ روپے دے سکتی ہے لیکن سابق فوجیوں کو دینے کے لئے 19ہزار کروڑ روپے نہیں ہیں۔
میٹنگ کے دوران راہل گاندھی نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ایک بہت اچھی میٹنگ تھی،بہت سی چیزیں سنجیدگی سے متعلق ہیں،اوآراوپی کا مسئلہ اہم رہا جس میں فوجیوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ون رینک ون پنشن اسکیم اب تک شروع نہیں کیا ہے۔راہل گاندھی نے کہا کہ جموں و کشمیر میں حکومت کی غلط حکمت عملی کا خمیازہ ہمارے فوجی بھگت رہے ہیں،اب رافیل ڈیل کا مسئلہ چھایاہوا ہے۔اس کے ساتھ فوجیوں کا ایک خاص تعلق ہے،تعلق یہ ہے کہ انل امبانی کو حکومت کچھ نہ کرنے کے بدلے میں 30ہزار کروڑ روپے دے سکتی ہے لیکن فوجیوں کو اوآراوپی نہیں دے سکتی۔کانگریس صدر رافیل مسئلے پر حکومت کے خلاف کئی دنوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔انہوں نے اس معاہدے کو بڑی بدعنوانی بتاتے ہوئے وزیراعظم مودی کے استعفیٰ کی بھی مانگ کی ۔
کانگریس کے صدر نے کہا ہے کہ بی جے پی بدعنوانی کی بات کرکے اقتدار میں آئی تھی اور اب وہ خود ان الزامات کوجھیل رہی ہے،ان پر جو الزامات لگائے گئے ہیں، انہیں ان معاملوں پر بات کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ اگر اس معاملے پرمودی بات نہیں کر سکتے تو پھر انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔راہل گاندھی کے مطابق رافیل ڈیل دفاعی شعبے میں کرپشن کا معاملہ ہے،اس بدعنوانی کوسمجھنے کے لیے تمام چیزیں سامنے ہیں،آہستہ آہستہ تمام بدعنوانیاں سامنے آرہی ہیں۔اس معاملے میں کانگریس نے جے پی سی تشکیل دے کر تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے لیکن حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔